Friday, April 29, 2016

پولیس اسٹائل اور سلیمانی ٹوپی


پولیس اسٹائل اور سلیمانی ٹوپی
یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک ۔۔۔ سہیل سانگی

کراچی میں پولیو کی حفاظت پر تعینات پولیس پر حملے اور سات اہلکاروں کے ہلاکت کے واقعے بعد ایک بار پھر شہر میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن زیر بحث آیا ہے، کیونکہ ضرب عضب سے بھی پہلے ملک کے اس صنعتی حب میں آپریشن جاری تھا۔

شہر میں اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری اور کاروں کے چھیننے کے واقعات میں واضح کمی ہوئی ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی ہلاکت سے قبل فرقہ ورانہ بنیادوں پر تین افراد کے قتل کی واردات پیش آچکی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے بلکہ موقع کے منتظر ہیں جب بھی اور جہاں بھی انہیں اپنے قوت دکھانی ہوتی ہے، وہ بھرپور وار کرتے ہیں۔

جب سے اس شہر میں آپریشن شروع ہوا ہے پولیس مسلسل نشانے پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ ایک سال کے اندر ہزار کے قریب جوان اور افسران نشانہ بن چکے ہیں اور ان میں زیادہ تر واقعات اسی اورنگی ٹاو ¿ن کے علاقے میں پیش آ رہے ہیں۔جہاں گزشتہ دونوں پولیس کی حفاظت پر تعینات اہلکار شکار ہوئے۔ 

کراچی میں ایک نیا رجحان بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے وہ ہے ماورارئے عدالت ہلاکتوں کا ۔ایس ایس پی راو ¿ انور سخت سیکیورٹی میں نکلتے ہیں اور واپسی میں تین سے چار لاشیں ہوتی ہیں جنہیں شدت پسند قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ تین چار سے جاری ہے گزشتہ دنوں ملیر میں بھی اسی طرح تین افراد کو مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا حد تو یہ ہے کہ انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان تمام حقائق کا الیکٹرانک میڈیا چشم دید گواہ ہے لیکن ناجانے کن اسباب کی وجہ سے وہ خاموش رہتا ہے۔

صورتحال یہاں تک جاپہنچی ہے کہ انسانی حقوق کمیشن کے رہنما کہہ چکے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگز میں جتنی کمی ہوئی ہے ماورائے عدالت ہلاکتیں اس سے زیادہ بڑہ گئی ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ جس کے پاس اسلحہ اور اختیار ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے نتیجے میں عسکریت پسندی بڑہتی ہے۔

پولیس کے تحقیقاتی شعبے سے منسلک ایک ایس ایس پی کا تو یہ ماننا ہے کہ راو ¿ انوار کے ان مقابلوں کی وجہ سے پولیس پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے ثبوت کے لیے وہ ان کالعدم تنظیموں کے حوالے دیتے ہیں جو کہتی رہی ہیں کہ انہوں نے بدلہ لیا۔

کراچی پولیس پر سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ ہونے کے بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک سیاسی جماعت کے ٹارگٹ کلر نے یہ بھی اعتراف کرلیا کہ انہیں سیاسی کارکنوں کی جے آئی ٹی رپورٹس ایس پی سی آئی اے علی رضا دیا کرتے تھے۔ اس طرح لیاری سے گرفتار ی انسپیکٹر نے لیاری گینگ وار سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے جو اس وقت زیر حراست ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے نشانے پر بھی پولیس اور ان کی اتحاد میں پولیس ہے۔

کراچی کے علاقے حیدرآباد، سکھر اور گھوٹکی تک پولیس نے یہ نیا اسٹائل اپنا لیا ہے۔جس کو اب ”فل فرائی“ اور” ہاف فرائی“ کا نام دیا گیا ہے، اس نام کے موجد ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ ہیں جنہوں نے دو سال قبل حیدرآباد آمد کے ساتھ یہ سلسلہ شروع کیا ۔چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں مشتبہ ملزمان ہلاک ہونے لگے اور جو موبائیل چوری اور چھینا جھپٹی میں ملوث تھے انہوں ٹانگوں میں گولیاں ماری جانے لگیں۔عرفان بلوچ اس سے قبل اورنگی ٹاو ¿ن میں تعینات تھے جہاں سے وہ اسٹائل اپنے ساتھ لیکر آئے۔ اس وقت حیدرآباد میں امن امان کافی حد تک قابو میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کتنا دیرپا ہوگا؟

پنجاب میں جب چھوٹو گروپ کے خلاف آپریشن کے دوران یہ امید تھی کہ سندھ میں بھی پولیس کچھ متحرک ہوگی کیونکہ یہاں بھی اغوا انڈسٹری عروج پر ہے تاہم کوئی چھوٹو گینگ نہیں ہے جس کے لئے فوج طلب کرنی پڑے۔

جیکب آباد کے علاقے ٹھل سے تقریبا نو سال قبل ایک لڑکی فضیلہ سرکی کو اغوا کیا گیا عدالت کے احکامات اور صوبائی اسمبلی میں دعوو ¿ں کے باوجود بھی اس کی بازیابی نہیں ہوسکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات کو پولیس کسی حساب میں نہیں لاتی، لیکن آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی بے بسی سمجھ میں نہیں آتی۔

اے ڈی خواجہ نے چارج لینے کے فورا بعد فضیلہ کے والد سے رابطہ کر کے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان کی بچی کو جلد بازیاب کرالیا جائے گا۔ 
 فضیلہ کی بازیابی کے لئے ناکام آپریشن کے بعد اس فرض شناس افسر سے پوچھا جاسکتا ہے کہ قانون تو اندھا ہوتا ہے لیکن یہاں قانون سماعت اور بصارت بھی کھو بیٹھا ہے کہ اسے کسی مقدمے میں نامزد ملزمان بھی نظر نہیں آتے؟ شاید فضیلہ کے اغوا کاروں کو سلیمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں کہ وہ پولیس کو نظر نہیں آتے۔ 

فضیلہ سرکی کے اغوا کی طرح نوشہرو فیروز کے رہائشی نوجوان عمران جوکھیو بھی لاپتہ ہے، جس کی بیوہ ماں اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے کبھی پریس کلب پر بھوک ہڑتال تو کبھی پولیس دفاتر کے چکر لگاتی ہے۔ عمران نہ کسی سیاسی جماعت کا کارکن تھا اور نہ ہی کسی شدت پسند تنظیم سے اس کا کوئی تعلق ۔ وہ گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہوگیا جس کی تاحال لاش بھی نہیں ملی کہ دکھیاری ماں کو کچھ چین آجائے۔ بس پولیس کی اپنی روایتی تفتیش جاری ہے۔پولیس سے عوام پہلے ہی ناامید تھے لیکن اب لوگ فرض شناس افسر اے ڈی خواجہ سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔


پولیس اور دیگر محکموں کی بدترین کارکردگی پر عدلیہ کا رویہ بھی سندھ حکومت کے بارے میں سخت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب سپریم کورٹ میں یہ ریمارکس سننے کو ملے کہ جب تک مسٹر شاہ ہیں تب تک حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ اسی سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے تھے کہ سندھ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور حکومت اربوں روپے کے ٹھیکے غیر قانونی طور پر دے رہی ہے۔

http://www.dailyausaf.com/story/105074

Sunday, April 24, 2016

پیپپلزپارٹی اور پاناما لیکس


پیپپلزپارٹی اور پاناما لیکس 

کالم ۔۔ یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک ۔۔ سہیل سانگی

پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مستعفی ہونے کے لیے نہیں کہیں گے اور نہ ہی ایسی کسی تحریک کا حصہ بنے گی، یہ وہ پیپلز پارٹی ہے جس کی قیادت کے خلاف مسلم لیگ ن نوے کی دہائی میں آف شور کمپنیوں کا اسکینڈل سامنے لیکر آئی تھی۔

1994 میں جب نواز شریف ایوان میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر آف شور کمپنیاں بنانے پر شور کر رہے تھے دوسری طرف وہ خود بھی ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہے تھے پاناما اسکینڈل اس بات کا ثبوت کرتا ہے، اب نواز شریف کہتے ہیں کہ یہ کمپنیاں ان کے بیٹوں کی ہیں تو کیا اس وقت ان کے صاحبزادے اس قابل تھے کہ اتنا بڑا کاروبار کرسکیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میاں نواز شریف کا بیرون ملک کاروبار تو ان کے سعودی عرب جلاوطنی کے بعد سامنے آیا ہے۔ پھر یہ کونسا کاروبار ہے جس کے ذریعے اربوں رپے کمائے گئے؟جس ملک میں بظاہر یہ کوششیں کی جاتی ہوں کہ یہ یہاں بیرونی سرمایہ کاری ہو وہاں سے سرمائیدار جب بیرون ملک سرمایہ کاری تو ترجیح دیں گے تو پھر کوئی غیر ملکی اپنا پیسہ کیوں لگائے گا۔

موجودہ صورتحال میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کا کردار انتہائی محتاط نظر آتا ہے۔ نواز اور شہباز میں اختلافات کی بازگشت کوئی نئی بات نہیں جب شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شریف نے سیاست میں تیزی کے ساتھ قدم اٹھانے شروع کیے تو کچھ اسپیڈ بریکر لگائے گئے اور اس کے بعد مریم نواز کی انٹری ہوئی جو اب امریکہ کی یاترا تک پہنچ چکی ہے، اس کا مطلب کھلا شہباز شریف سے اختلاف کا مظہر تھا۔

چوہدری نثار کے اقدامات اور میاں نواز شریف کا موقف بھی متضاد نظر آئے، ممتاز قادری کے معاملے پر اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے ساتھ جو معاملات طئے ہوئے اس سے یوں محسوس ہوا جیسے دونوں میں مشاورت کی کمی تھی۔

پانامہ کے معاملے پر چوہدری نثار نے عمران خان کو دھرنے کی اجازت دے دی ہے اس کے علاوہ ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ شعیب سڈل کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے تاہم اس پر چوہدری نثار راضی نہیں کیونکہ کسی رٹائرڈ افسر کے ذریعے وہ تحقیقات کرانے کے مجاز نہیں۔

پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے بجائے وزیر اعظم نواز شریف نے ٹیلیویڑن سے قوم سے خطاب کرنے کو ترجیح اور جڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا اعلان کیا تھا باوجود اس کے اس ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ کمیشن کا کام رکارڈ میں مزید دستاویز کے اضافے کے علاوہ کبھی کچھ نہیں رہا، حمود الرحمان کمیشن سے لاہور ماڈل ٹاو ¿ن کمیشن کی کئی مثالیں موجود ہیں ان کے ذریعے صرف رلیف لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

حکومت کی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کے قیام پر کوئی بھی اپوزیشن راضی نہیں ہے، جب جسٹس رٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کا نام سامنے آیا تو پیپلز پارٹی نے یہ کہہ کر مخالفت کردی کہ ان کی بیگم کہہ چکی ہیں کہ جسٹس سرمد جلال رٹائرمنٹ کے بعد مسلم لیگ ن میں شامل ہوں گے، لہذا ان کی مسلم لیگ نون کے لیے ہمدردیاں موجود ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے جسٹس سرمد جلال کی بیگم نے 2007 میں یہ بیان دیا تھا۔

ماضی کے برعکس اس وقت سیاست بلوغت کے دور میں داخل ہوچکی ہے یا موقعہ پرستی کا دور دورہ ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو ذہنوں کے خلیوں میں دوڑ رہا ہے۔ تحریک انصاف جو کرپشن اور بیڈ گورننس کے دو نقاطی ایجنڈہ پر سرگرم ہے وہ اس سنہری موقع کو گنوانے کو تیار نہیں لیکن ماضی کے برعکس اس بار اپوزیشن جماعتیں ایک صفحے پر نظر نہیں آتیں اور تحریک انصاف کی شکل میں تو یہ ممکن ہی نظر نہیں آتا، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام ، عوامی نیشنل پارٹی اختلافات اور تنقد کے باوجود مسلم لیگ ن کے ساتھ کندھا کندھے میں ملاکر کھڑی ہوئی ہیں۔

تحریک انصاف کے بارے میں جو قیاس آرائیاں ہیں کہ اگلی باری اس کی ہوگی اور ان پر متقدر حلقوں کی بھی چھتر چھایا موجود ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ باقی جماعتوں کو حصہ نہیں ملے گا اس صورتحال میں ان کے لیے یہ ہی آپشن بہتر ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی حمایت جاری رکھیں اس کو جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے۔

صورتحال یوں بھی دلچسپ ہے کہ ماضی میں حکومت مخالفت تحریکیں پنجاب اور سندھ سے اٹھتی رہی ہیں لیکن دونوں صوبوں کی نمائندہ جماعتوں کی مفاہمت نے اس روایت کو تبدیل کردیا ہے، جب میاں نواز شریف لندن جا رہے تھے تو یہ خبریں سامنے آئیں کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے لیکن پچھلے دنوں بلاول بھٹو کے ایک سطر کی ٹوئیٹ نے واضح کیا کہ آصف زرداری سے نواز شریف سے ملاقات نہیں کریں گے۔

جب ایوان میں موجود جماعتیں” صورتحال دیکھو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو اس صورتحال میں مقتدر حلقوں کو ان جماعتوں کی ضرورت پیش آئیگی جو تھوڑی بہت اسٹریٹ پاور رکھتی ہیں۔
اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو نے دانشوروں ،ادیبوں، صحافیوں اور مزدور رہنماو ¿ں سے مدد کی درخواست کی ہے تاکہ وہ اپنا پارٹی پروگرام ان تجاویز کی روشنی میں تشکیل دے سکیں، یقینن یہ ایک مثبت کوشش ہے اس سے قبل وہ جنوبی پنجاب میں جلسہ عام کرچکے ہیں اب ان قدم آزاد کشمیر کی طرف ہیں وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا اثر رسوخ کا حتمی فیصلہ کا اختیار کیا ختم ہوچکا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کی پگڑی اب بلاول بھٹو کے سر پر آئی ہی تمام قیادت نے اپنے ساتھی اور اتحادی اپنی مرضی سے مقرر کیے تھے کیا بلاول بھٹو کو یہ اختیار حاصل ہوچکا ہے۔

 پیپلز پارٹی نے اپنا تنظیمی ڈھانچہ بھی تحلیل کردیا ہے اب انتخابات ہوں گے جس کے لیے تنظیم سازی بھی کی جارہی ہے، لیکن اس وقت کی اطلاعات کے مطابق و ہی ان عہدوں کے امیدوار ہیں جو برسوں سے ان عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں یعنی اگر پروگرام نیا بن بھی جائے تو یونٹ سے لیکر قومی اسمبلی تک اس کی پیروی کرنے والے وہ ہی پرانے چہرے ہوں گے جو سر تک کرپشن کے الزام میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے جو چار دھایاں قبل روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا چار بار حکومت میں آنے کے باوجود صورتحال جوں کی توں رہیں، مڈل کلاس قیادت کہاں سے آئے جو کرپشن سے بیزار ہے ہوسکتا ہے کہ کسی کونے میں اروند کیجروال جیسے لوگ بیٹھے ہوں لیکن اس سیاسی گٹر کو صاف کرنے کی کوئی ہمت نہیں کر رہا۔

Daily Ausaf .. Column Sohail Sangi

Tuesday, April 19, 2016

چھوٹو گینگ اور سندھ حکومت کی تشویش

چھوٹو گینگ اور سندھ حکومت کی تشویش
کالم ۔۔



کالم ۔۔ یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک ۔۔ سہیل سانگی

پنجاب میں چھوٹو گینگ کا گھیراو ¿ تنگ ہونے کے بعد امکان ہے کہ وہ راہفرار لیکر صوبہ سندھ کے کچے میں داخل ہو، اس بات میں اس وجہ سے بھی وزن ہے کیونکہ ماضی میں بھی اس کو یہاں پناہ ملتی رہی ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ سے سنیچر کے روز ڈائریکٹر جنرل رینجرز جنرل بلال اکبر نے ملاقات کی تھی جس میں پنجاب میں چھوٹو گینگ کے خلاف جاری آپریشن کے سندھ پر اثرات پر غور کیا گیا اور دونوں صوبوں کے سرحدی علاقوں کی نگرانی سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

چھوٹو جو کبھی پنجاب پولیس کے مخبر رہے ، اسکی سندھ کے نمبر ون ڈاکو سلطان عرف سلطو شر سے دوستی ہے۔ پولیس کے مطابق سلطو شر ضلع گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں سرگرم ہے، دونوں ڈاکوﺅں کی ”قدر مشترکہ“ یہ بھی ہے کہ ان کا کوش قبیلے سے دیرینہ تنازعہ ہے۔

گھوٹکی سے دریائے سندھ کی اپ اسٹریم میں دریائے سندھ کے چوڑائی آٹھ کلومیٹر سے گیارہ کلومیٹر تک ہے، جس میں کچا کراچی، کچا مورو، کچا اورنگی اور کچا حیدرآباد سمیت مختلف چھوٹے جزائر ہیں جو متوسط سیلاب میں بھی محفوظ رہتے ہیں، پولیس کے مطابق پنجاب کے ڈاکو اس جغرافیائی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

2010 کے آپریشن کے بعد چھوٹو نے بلوچستان کے علاقے نال میں پناہ لے لی تھی۔ جب صورتحال معمول پر آئی تو وہ واپس آگیا۔اس آپریشن میں ان دنوں وسطی سندھ میں تعینات ایک ایس ایس پی بھی شریک تھے ان کا کہنا ہے کہ 2012 میں ایک بار پھر آپریشن ہوا جس میں چھوٹو کے رشتے دار بھی حراست لیے گئے لیکن اس نے راجن پور پولیس چوکی پر حملہ کرکے گیارہ پولیس اہلکاروں کو اغوا کرلیا اور بدلے میں اپنے رشتے داروں کی رہائی کرائی اور سندھ کی طرف چلا گیا۔

اس ایس ایس پی مطابق 2012 میں چھوٹو پولیس سے صرف چند میٹر سے بچ گیا تھا، جب بہاولپور ٹول پلازہ پر اس کی گاڑی کو روکا گیا لیکن اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور حادثے کا شکار ہوگیا اس کا ایک قریبی رشتے دار فوت ہاگیاجبکہ تین افراد کو حراست میں لیا گیا تاہم چھوٹو فراہم ہونے میں کامیاب رہا۔
سندھ میں چھوٹو کا ٹھکانہ اس کے دوست سلطو شر کی پناہ گاہ رہے۔ اخبارات میں جو تصاویر شایع ہوئی ہیں اس میں اس نے گھوٹکی اسٹائل کی سندھی ٹوپی پہن رکھی ہے، گزشتہ سال جب کچے میں پولیس نے آپریشن کیا تو اس وقت بھی چھوٹو یہاں موجود تھا اور اس نے سلطو شر کے گروہ کے ساتھ مل کر پولیس کا مقابلہ کیا، اس آپریشن میں ایک ایس ایچ او ہلاک ہوگیا۔ بعد میں پولیس بے بس ہوگئی رینجرز نے آپریشن کی کمانڈ سنبھالی ااور جنگل میں آگ لگانا شروع کردی، تو ڈاکو پیچھے ہٹ گئے اور علاقہ چھوڑ گئے اس کے بعد چھوٹو بھی اپنے علاقے کی طرف چلا گیا۔

بالائی سندھ میں دریا کے دونوں اطراف میں خیرپور، شکارپور، کشمور اور گھوٹکی میں اس وقت بھی ڈاکو سرگرم ہیں، لیکن قبائلی تنازعات کی وجہ سے ان کی حدود غیر اعلانیہ طور پر محدود ہیں۔ ان علاقوں میں ڈاکو نذرو ناریجو کی دہشت رہی ہے جو گزشتہ سال ایک مقابلے میں مارا گیا پولیس نے اس کے رشتے داروں کا بھی پیچھا کیا اور میرپورخاص میں دو افراد مقابلے میں ہلاک ہوئے۔
سندھ میں ڈاکو اغوا کے علاوہ بھتہ خوری اور کچے کی زرخیز زمینوں پر کاشت اور بھینسیں بھی پالتے جن کا دودھ قریبی شہروں میں فروخت کیا جاتا ہے، نذر ناریجو کے حوالے سے بھی بعض تھوریز ہیں کہ سیاسی شخصیات کے ساتھ اختلاف کے بعد اس کی موت کا پروانہ جاری کیا گیا تھا۔

نذرو ناریجو کے بعد اس وقت سندھ کا سب سے بڑا ڈاکو سلطو شر ہے، جو خود اغوا کی وارداتیں نہیں کرتابلکہ دوسرے چھوٹے چھوٹے گروہ اغوا کرکے مغوی انہیں بیچ دیتے ہیں اور تاوان سلطو شر وصول کرتا ہے۔چھوٹو نے بھی اسی طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ اب یہ دونوںسندھ اور پنجاب کے ڈاکو مغویوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں یعنی کسی مغوی کے حوالے سے پولیس کا دباو ¿ بڑھ جائے تو اس کو کسی اور مقام پر منتقل کردیا جاتا ہے۔

اندرون سندھ اغوا کی وارداتوں میں کچھ قدر کمی آئی ہے، پہلے جس طرح سڑکوں پر نکل کر ڈاکو اغوا کی وارداتیں کرتے تھے اب اس کی شدت کم ہوئی ہے لیکن ساتھ میں دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اب یہ تاجروں سے بھتے لیتے ہیں جن میں ہندو برادری کے تاجر اور دکاندار سب سے پیش پیش ہیں۔
اندرون سندھ ہندو برادری کے لوگ زرعی ادویات، زرعی اجناس اور کریانے کے علاوہ سونار کے کاوبار سے منسلک ہیں۔اس کاوبار کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد انہیں ہاٹ کیک سمجھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے ان میں سے کئی تاجروں نے اپنے خاندانوں کو کراچی اور حیدرآباد منتقل کردیا ہے، کیونکہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے جب کہا جاتا تھا کہ ڈاکو کمزوروں خاص طور پر خواتین اور بچوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔

سندھ میں پرو چانڈیو، محب شیدی، کارو ناگ، کراڑو تھیبو، نادر جسکانی جیسے بڑے ڈاکو رہے ہیں جن میں سے کئی وڈیروں کے مظالم کے ردعمل میں ڈاکو بن گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ڈاکوں کی زندگی پر فلمیں بھی بنیں جن میں انہیں ہیرو کے روپ میں پیش کیا گیا۔ جس پر بعض نقادوں نے شدید تنقید کی کہ جرائم پیشہ افراد کے ذریعے رومانس پیش کیا جارہا ہے۔

 کوئی بھی جرم پشت پناہی کے بغیر پروان نہیں چڑھتا وہ کسی مقامی وڈیرے کی ہو یا ریاستی اداروں کی چھوٹ کا نتیجہ۔جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں سندھ میں ڈاکو کو پہلے چھوٹ دی گئی اس کے بعد ان کے خلاف بھرپور آپریشن ہوا نتیجے میں کچے کے جنگلات کو بے دریغ کاٹا گیا۔ اور یہاں سے جو زمینیں حاصل ہوئیں وہ اپنے من پسند لوگوں کو دی گئیں کشمور سے لیکر ٹھٹہ تک دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں واقع اس زمین پر کیٹیاں بن ہوئی ہیں جن کے مالکان وہ ہی ہیں جن کا رخ ہمیشہ پنڈی کی طرف ہوتا ہے۔ قبائلی بنیادوں پر سیاست کرنے والے ان سرداروں اور جاگیرداروں کی ڈاکو سیاسی مجبوری ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی حکمرانی قائم کیے ہوئے ہیں۔

 سندھ حکومت کو یہ تشویش ہے کہ چھوٹو گینگ سندھ میں داخل نہ ہوجائے لیکن اس وقت اس کے اپنے صوبے میں جو ڈاکو چھپے ہوئے جن کے خلاف شکارپور اور گھوٹکی میں آپریشن ناکام ہوچکے ہیں، اس کے بارے میں کوئی تشویش ہی نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قاقبل غور ہے کہ ایم کیو ایم کا مطالبہ رہا ہے کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کا دائرہ کراچی سے باہر بھی بڑھایا جائے لیکن اس پر حکومت خاموشی اختیار کرلیتی ہے۔

http://www.dailyausaf.com/story/103918
Sohail Sangi Column  Ye Hath Salamat hen jab tak. Daily Ausaf
کالم ۔۔ یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک ۔۔ سہیل سانگی



Sunday, April 17, 2016

گرینڈ الائنس : یہ کوئی متبادل نہیں


یہ کوئی متبادل نہیں


کالم ۔۔ یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک ۔۔ سہیل سانگی

 پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے جیسے کراچی سے قدم باہر رکھے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف قائم روایتی سیاستدانوں کا اتحاد سندھ ڈیموکریٹک گرینڈالائنس بھی سرگرم ہو گیا۔ پہلے اسکی سرگرمیاں صوبائی داراالحکومت کراچی تک محدود ہوتی تھیں۔ اپنے نام سے یہ جمہوری اتحاد ہے لیکن اس میں
شامل شخصیات ہمیشہ آمروں کی اتحادی اور قریب رہی ہیں۔

اس مرتبہ سندھ گرینڈ الائنس نے اپنی عوامی مہم کا آغاز عمرکوٹ سے کیا ہے جہاں گزشتہ ہفتے ہندو برداری کے تہوار ہولی کے موقعے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے جلسے عام کو خطاب کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ بھارت میں مسلمان صدر ہوسکتا ہے تو پاکستان میں اقلیتی آبادی کا کوئی فرد بھی کسی اہم منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ شاید وہ تاریخ سے آگاہ نہیںکہ اس کی وجہ بھی ان کی ہی جماعت اور ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے 1973 کے آئین میں یہ ممکن بنایا کہ آیندہ کوئی اقلیتی صدر یا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ خیر اگر انہیں اس غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

بھان متی کے کنبے کی مانند گرینڈ الائنس میں پانچ سابق وزیر اعلیٰ مظفر حسین شاہ، ارباب غلام رحیم، لیاقت جتوئی، غوث علی شاہ اور ممتاز بھٹو شامل ہیں ان سب کا دور حکومت کسی نہ کسی وجہ سے متنازعہ رہا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ کی زیر قیادت اس الائنس میں قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو بھی شامل ہیں ان کا ہدف کرپشن اور بیڈ گورننس ہیں۔

اس اتحاد کا اسٹرینگ ایک بار پھر مسلم لیگ فنکشنل کے ہاتھ میں ہے اس سے قبل 2013 کے عام انتخابات سے قبل بھی ان جماعتوں کا تلخ تجربہ رہا ہے، جب یہ اتحاد مشترکہ امیدواروں لانے میں ناکام رہا ۔ہر جماعت نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے، اس وقت اس اتحاد کے پاس سندھ کا بلدیاتی نظام مخالف ایجنڈہ تھا جس کو دوہرا نظام قرار دیا گیا تھا۔ اس بلدیاتی نظام کو متحدہ قومی موومنٹ کو خوش رکھنے کے لیے نافذ کیا جارہا تھا بعد میں عدالت کے حکم پر اس قانون میںترمیم کی گئی۔

تھر پارکر اور عمرکوٹ میں ہندو برداری کی تقریبا نصف آبادی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے بعض بیانات اور رویے کی وجہ سے ہندو برادری دل شکستہ ہوتی رہی ہے۔ جبکہ پیر پاگارہ کی حر جماعت سے تعلق رکھنے والے یہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور ان کے ہی مبینہ نجی کیمپوں سے کسان رہائی پاتے رہے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم لیگ فنکشنل کے لیے بھی عام ہاریوں کے پاس نرم گوشہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کو کچھ قدر ہندو برادری کی حمایت حاصل ہے اس کی ایک وجہ رکن قومی اسمبلی لال مالھی ہیں جو تحریک انصاف کی جانب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے اور ان کی برداری بڑی تعداد میں عمرکوٹ میں آباد ہے۔

مسلم لیگ فنکشنل دیہی سندھ کی ویسے تو بڑی جماعت ہے لیکن عملا تنظیمی طور پر یہ سیاسی جماعت کے طور پر کم بلکہ روحانی جماعت کے طور پر زیاددہ منظم ہے۔ اس کے سیاسی فیصلوں پر بھی حر جماعت اثر انداز ہوتی ہے۔جہاں پیر کے سامنے بولنا گستاخی سمجھا جاتا ہو، وہاں اختلاف رائے کہاں رکھی جاسکتی ہے، جو سیاست کا حسن ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے مسلم لیگ فنکشنل کبھی سیاسی جماعت کے طور پر نہیں ابھر نہ سکی۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھی عوام کا مزاج اینٹی اسٹبلشمنٹ رہا ہے جبکہ سابق پیر پاگارہ کھلے عام خود کو راولپنڈی سے جوڑتے رہے ہیں، تیسرا یہ ہے کہ سندھ کی جو مقبول عوامی تحاریک ہیں ان میں جمعیت علما اسلام کا تو کردار نظر آتا ہے لیکن مسلم لیگ فنشکنل خاموش رہی ۔
 ون یونٹ کے خلاف تحریک، ایم آر ڈی میں تو پیر پاگارہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ کالا باغ ڈیم کے خلاف تحریک میں بھی عوامی آواز میں آواز ملانے کے بجائے وہ اس کے حمایتی نکلے اور انہوں نے جنرل مشرف کی حمایت کردی تھی۔ اس صورتحال میں سندھ کے لوگ مسلم لیگ فنکشنل کو دوسرا نہیں بلکہ بدترین آپشن سمجھتے ہیں۔ اسکو بطور آپشن دینے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچتا ہے۔
 عمرکوٹ میں اس الائنس کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کیا جائے یعنی ایک منتخب حکومت کو چلتا کردیا جائے یقینن یہ ایک غیر جمہوری مطالبہ ہے جس سے یہ عزائم سامنے آتے ہیں کہ اس اتحاد کا مقصد عوامی مسائل کے حل میں نہیںپر کسی طرح سے اقتدار تک رسائی ہے۔
 یہ اتحاد تضادات کا بھی منبہ نظر آتا ہے، قومی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کی سیاست جاگیرداروں اور پیروں کے خلاف رہی۔ آج ان کا فرزند ایاز پلیجو اسی اتحاد کا ترجمان بناہوا ہے، یعنی اب وہ ممتاز بھٹو کے دور حکومت کی بھی وکالت کریں تو ارباب غلام رحیم کے دور کی برایاں بھی انہیں نظر نہیں آئیں گی۔
 اس اتحاد میں شامل پانچ سابق وزرائے اعلیٰ یقینن اسی منصب کے امیدوار ہوں گے جبکہ مسلم لیگ فنکنشل کی عرصہ دراز سے یہ کوشش ہے کہ یہ منصب اس کے حصے میں آئے۔ اتحاد میں شامل فریق اس کو اتنا آسان بنانا چاہیں گے؟
 دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے موجودہ پیر پاگارہ اور ان کے بھائی صدرالدین شاہ کے درمیان اختلافات کی بازگزشت ہے۔ گزشتہ انتخابات میں وہ خود سرگرم ہوئے تھے لیکن اس بار انہوں نے فاصلہ ر کھاہے ۔عملا اس اتحاد میں ایسی کوئی بھی قدآورشخصیت موجود نہیں جس کو صوبے کی سطح پراہمیت یا اپیل حاصل ہو۔ مسلم لیگ فنکشنل خیرپور، سانگھڑ، عمرکوٹ تو ارباب غلام رحیم تھر اور لیاقت جتوئی دادو کی حد تک سیاسی اثر رسوخ رکھتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی پارٹی پروگرام ہے اور نہ منشور اپنی میں خود ہی تنظیم ہیں۔یہ مختلف الخیال شخصیات کا اتحاد ہے جس میں کوئی ایسا گروپ شامل نہیں جس کی صوبے بھر میں کوئی تنظیمی شکل ہو۔ جسقم، جیئے سندھ محاذ سمیت جیئے سندھ کا کوئی کے کسی بھی گروپ ، یہاں تک کہ جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائٹیڈ پارٹی تاحال اس اتحاد میں شامل نہیں۔ 

مسلم لیگ (ن) بھی گرینڈ ڈیمو کریٹس الائنس میں شامل رہی، لیکن میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیاست نے اس کو دور ہٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس وقت وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی اس اتحاد میں موجود ہیں جو ہیں تو مسلم لیگ( ن )میں لیکن خود کو اس سے الگ رکھا ہوا ہے، اس سے قبل اسماعیل راہو اور دیگر رہنماو ¿ں نے اپنے قدم روک لیے تھے، یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی بھی مسلم لیگ ( ن) سے ٹوٹ کر اس اتحاد میں گرے ہیں جو بھی اندرونی طور پر نواز لیگ کے مخالف ہیں۔ ایک سنیئر تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ وہ اس وجہ سے حکمران جماعت نواز لیگ میں شامل ہوئے تھے کہ اب پیپلز پارٹی سے ”بدلہ“ لیں گے اور اقتدار میں حصہ پتی حاصل کریں گے۔ لیکن ملکی صورتحال کے پیش نظر نواز شریف پی پی کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اب وہ اپنا غصہ اور مایوسی کا بدلہ پیپلزپارٹی کے خلاف اظہار کر کے نکال رہے ہیں۔ ان کا شاید یہ بھی خیال ہو کہ جس طرح سے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے ساتھ پیپلزپارٹی کے خلاف بھی کرپشن کے لازامات میں مقدمات منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے متوازی جماعت مصطفیٰ کمال کی سربراہی میں آئی ہے۔ کیا پتہ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں بھی کسی سیاسی قوت کی ضرورت پڑے۔ ایسے میں ان کا یہ اتحاد کام آسکتا ہے۔ 

تحریک انصاف بھی اتحاد کے قیام کے وقت قریب قریب رہی اور اس کے رہنما نادر اکمل لغاری اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہوتے رہے لیکن بعد میں تحریک انصاف بھی غیر سرگرم ہوگئی ۔یقینن تبدیلی کا اعلان اور جمود والی سیاست شخصیات ساتھ نہیں چل سکتیں ،اس لیے تحریک انصاف کا فیصلہ درست سمت میں نظر آتا ہے، قوم پرست میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی نے اس بار خود کو اتحاد سے دور رکھا ہے انہیں انہیں کچھ شکوہ شکایت ہیں۔
اس اتحاد کی قیادت مسلم لیگ فنکشنل کے پاس ہے اور اس نے عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کیا ہے، اسی طرح اس میں شامل فریق بھی ایسی صورتحال سے گذر چکے ہیں عام انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی نظریں پھر بھی ان پراسرار بندوں پر ہیں جو انہیں کندھے پر بٹھاکر اقتدار تک پہنچائے کیونکہ ان کا کردار اور خیال کبھی ایسے نہیں رہے کہ عوام یہ فرائض سر انجام دے۔

http://www.dailyausaf.com/story/103918
Sohail Sangi Column  Ye Hath Salamat hen jab tak. Daily Ausaf